Tuesday, 30 August 2022

ایک طالب علم کی ڈائری روزنامچہ لکھنا :


        ایک طالب علم کی ڈائری

روزنامچہ لکھنا 

میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ مجھے وقت کی پابندی کا بہت احساس ہے ۔ میں نے اپنے اوقات کی تقسیم اس طرح کر رکھی ہے کہ اپنی تمام مصروفیات کے لیے کچھ نہ کچھ وقت نکال لیتا ہوں۔ میں ایک سال سے برابر اپنا روزنامچہ لکھ رہا ہوں۔ اب یہ اچھی خاصی کتاب کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ کبھی کبھی اپنے روزنامے کو پڑھتا ہوں تو گزرے ہوۓ واقعات کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ جا تا ہے ۔ بیتے

ہوۓ لحات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور میں یوں محسوس کر تا ہوں جیسے واقعات کو دوبارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔

دلچسپ چیز :

روز نامچہ (ڈائری) بڑی دلچسپ چیز ہے۔ اگر پڑھے لکھے لوگ اپنا روز نامچہ لکھنے کے عادی ہوں تو اس سے ان کی سرگرمیوں اور طبیعت کے رجحان کا بڑی حد تک پتہ چل جاتا ہے کیونکہ جو کام وہ پابندی سے ہر روز انجام دیتے ہیں وہ ان کے روجحان طبع کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ میں پچھلے اتوار کا روز نامچہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

روز نامچے کا ایک ورق :

میں صبح پانچ بجے بیدار ہوا۔ نماز فجر ادا کر نے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی۔ پھر سیر کے لیے دریائے راوی کی طرف چل دیا۔ ایک گھنٹہ سیر کرنے کے بعد واپس آیا۔ آکر غسل کیا اور ناشتے پر بیٹھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میری عادت ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتا ہوں۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میں اسکول کا کام کرنے کے لیے تیار ہوا۔ کتابیں لیں اور باہر چلا گیا۔ میں کھلی فضا میں بیٹھ کر پڑھنا پسند کرتا

ہوں۔ چنانچہ شاہی مسجد کے سامنے سر سبز پلاٹوں میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ میں مصروف رہا۔ تین گھنٹے بعد وہاں سے لوٹا۔ تھوڑی دیر آرام کیا دوپہر کا کھانا کھایا اور کچھ دیر تک سونے کے لیے اپنے شب خوابی کے کمرے میں چلا گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر سونے کے بعد اٹھا منہ ہاتھ دھویا اور لکھنے کا کچھ سوچا۔ اتنے میں ریڈیو کا پروگرام نشر ہونے لگا۔ میں نے اس پروگرام کو سنا۔ یہ پروگرام ختم ہوا تو امی نےکہا۔ بازار سے سودا لا دو۔ میں بازار گیا اور سبزی وغیرہ خرید لایا۔ واپس آکر ظہر کی نماز پڑھی۔اتنے میں چائے تیار ہو گئی۔ چاۓ پینے کے بعد میں ہاکی لے کر گراؤنڈ کر طرف چلا گیا۔ وہاں ڈیڑھ گھنٹہ تک ہاکی

کھیلتارہا۔ نماز عصر اسکول گراؤنڈ کے قریب ادا کی اور مغرب کی نماز بھی وہیں پڑھی۔ شام کو گھر لوٹا۔ کھانا کھایا اور پھر سیر کے لیے باہر چلا گیا۔ میرے دوست اسلم نذ یر اور پرویز بھی میرے ساتھ تھے۔ واپس آکر نماز عشاء ادا کرنے کے بعد اسکول کا باقی کام مکمل کیا۔ پھر اپناروز نامچہ لکھا اور سو گیا۔ یہ ہے میرے پچھلے اتوار کاروز نامچہ “

"فوائد :

روز نامچہ لکھنے سے پابندی وقت کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان روز مرہ کے فرائض ادا کر نے کے لیے مستعد رہتا ہے۔ لکھنے کی مشق ہوتی ہے اور کسی فرض کی ادائیگی میں تساہل نہیں ہو تا۔

طلباء کے لیے اہمیت :

طالب علموں کے لیے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کے لیے وقت کی پابندی دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اگر طالب علم وقت کا پابند ہو گا تو یقینا ہر امتحان میں کامیابی اس کا ساتھ دے گی۔

زندگی کے ہر مشفلے کا ذکر روز نامچے میں ضروری ہے ۔ قوت یاداشت کو مضبوط بنانے کے لیے روزنامچہ لکھنا بڑا مفید ہے ۔


صبح کی سیر


                صبح کی سیر


کہاوت :


مثل مشہور ہے کہ ” تندرستی ہزار نعمت ہے اس کہاوت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے صحت اور تندرستی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو اپنی صحت کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ صحت کو قائم رکھنے اور بہتر سے بہتر بنانے کے لیے جہاں عمدہ خوراک اور پرہیز وغیرہ کی ضرورت ہے وہاں صبح کی سیر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے ۔

صحت کا راز :

جو لوگ ہر روز صبح سویرے اٹھتے ہیں اور تازہ ہوا کھانے کے لیے آبادی سے باہر دور کھیتوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کی صحت ہمیشہ اچھی رہتی ہے کا ملی ان کے نزد یک تک نہیں پھٹکتی ان کا جسم اور

دماغ دونوں صحت مند رہتے ہیں۔ کسانوں کو دیکھے ان کی عمدہ اور قابل رشک صحت کا راز بھی یہی ہے کہصبح سویرے منہ اندھیرے سے اٹھتے ہیں اور اپنے کھیتوں کی راہ لیتے ہیں۔ جہاں زیادہ آکسیجن ان کے پھیپھڑوں میں جاتی ہے اور وہ ہمیشہ تندرست و توانا رہتے ہیں۔

فائدے :

صبح کی سیر سے انسان کو ایک خاص قسم کا سرور اور لطف ملا ہے اور سارادن چاق و چوبند اور ہشاش بشاش رہتا ہے۔ سر سبز کھیتوں کا  ہرے بھرے درختوں کو دیکھنے سے آنکھوں کو ترواٹ اور دل کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔ دماغی تکان کو دور رکھنے کے لیے بھی اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں جو شخص دن چڑھے تک بستر پر پڑار ہتا ہے اور صبح کے سہانے مناظر سے لطف اندوز نہیں ہو تا وہ دراصل ایک بہت بڑی قدرتی نعمت سے محروم رہتا ہے۔

میری عادت :

میں روزانہ صبح سیر کرنے کا عادی ہوں۔ میرا دوست عمران بھی ہر روز میرے ساتھ جاتا ہے۔

کل اتوار کا دن تھا۔ سکول سے چھٹی تھی۔ میں حسب معمول صبح سویرے بیدار ہوا۔ عمران کے ہاں پہنچا اور اسے ساتھ لے کر شہر سے باہر نکل گیا۔ چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر سے ہوتے ہوئے ہم کھلی فضاء میں پہنچ گئے۔ بڑا سہانا منظر تھا۔ کسان کھیتوں میں ہل چلار ہے تھے۔ پرندوں کے چہچانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یوں محسوس ہو تا تھا جیسے خدا کی یہ بے زبان مخلوق بھی اپنی زبان میں حمد خدا کے گیت گار رہی ہے اور غافل انسان کو اس کا فرض یاد دلارہی ہیں۔ ہم پھرتے پھراتے کافی دور نکل گئے۔ یہی جی چاہتا تھا کہ آگے ہی آگے چلتے جائیں۔ زمین پر دور دور تک سبز مخمل کا فرش بچھا ہوا تھا۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی تھی۔ ہری ہری گھاس پر شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے ۔ سورج آہستہ آہستہ مشرق سے طلوع ہو رہا تھا۔ اور اس کی سنہری کرنیں چاروں طرف نور بر سار ہی تھیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔اس کے نرم نرم جھونکے روح

کو شگفتہ اور تازہ کر رہے تھے۔ الغرض بڑا پیارا اور دلکش سماں تھا۔ گھر لوٹنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ہم کوئی دو گھنٹے تک اسی طرح گھومتے

رہے اور جب سورج کافی اوپر آگیا تو گھروں کو واپس آگئے ۔

Monday, 29 August 2022

ورزش کے فائدے

     

ورزش کے فائدے.          ۔   

               

اہمیت :

تندرستی اور صحت کے بغیر انسان کی زندگی ایک روگ ہے اور جس طرح زندہ رہنے کے لیے

خوراک ضروری ہے اسی طرح تندرست اور توانا رہنے کے لیے سیر اور ورزش بھی لازم ہے۔ ورزش سے انسانی جسم مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اعضاء مضبوط ہوتے ہیں۔انسان چست اور چاق و چوبند رہتا ہے ۔ اور اس کی طبیعت کام کاج میں خوب لگتی ہے۔ غرضیکہ انسانی صحت کو بر قرار رکھنے کے لیے ورزش سے بڑھ کر اور کوئی نسخہ نہیں ہے ۔

انسانی جسم ایک مشین :

انسانی جسم ایک مشین کی مانند ہے جس طرح مشین کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام کل

پرزے صحیح حالت میں کام کرتے ہوں انھیں مناسب خوراک یعنی تیل وغیرہ ملتا رہے ان کی صفائی ہوتی رہے۔ اسی طرح جسم کی مشین کے لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ اس کے تمام اعضاء پیچ سلامت رہیں صحیح سے ان کی صفائی ہوتی رہے یہ کام ورزش ہی انجام دے سکتی ہے۔ ورزش کرنے سے جب پسینہ آتا ہے جسم کے اندرونی فاسد مادے خارج ہو جاتے ہیں خون صاف ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ مشین ” میل کچیل“ سے پاک ہوتی رہتی ہے۔

فوائد :

ورزش کرنے والے آدمی کا جسم مضبوط خوبصورت اور سڈول بن جاتا ہے۔ رگ پٹھے مضبوط اور چاک و چوبند رہتے ہیں۔اعضاۓ ریشہ قوی ہو جاتے ہیں خون اچھی طرح جسم میں دورہ کر تا ہے اور اسطرح صحت بھی قائم رہتی ہے ورزش سے غذا اچھی طرح ہضم ہوتی ہے اور جزو بدن بن جاتی ہے نیند خوب آتی ہے دماغ تیز ہو جا تا ہے ۔ انسان ہر وقت خوش و خرم اور ہشاش بشاش رہتا ہے۔ بیماری ورزش کرنے والے انسان کے قریب نہیں پھٹکتی اور وہ دنیا کی نعمتوں کا صحیح معنوں میں لطف اٹھاتا ہے ۔

کب اور کیسے :

ورزش کے لیے صبح یا شام کا وقت مناسب ہو تا ہے کھلا میدان تازہ ہوا اور اعتدال ورزش کے لیے

نہایت ضروری ہیں۔ اگر اعتدال سے زیادہ ورزش کی جائے تو اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔ الٹا نقصان

اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح ورزش باقاعدہ اور بلا ناغہ ہونی چاہیے تاکہ جسم اس کام کا عادی ہو جاۓ اور اسے آسانی کے ساتھ کیا جاۓ ۔ سب سے عمدہ ورزش وہ ہے جس میں وقت کم لگے اور تمام اعضاء بھی حرکت آتے رہیں۔ تیرنا سیر کر نا کشتی کرنا مختلف کھیلیں کھیلنا بہترین ورزشیں ہیں۔

نقصانات :

جو لوگ ورزش سے کتراتے ہیں ان کی صحت ہمیشہ خراب رہتی ہے نہ انھیں کھانے کا لطف آتا ہے اور نہ وہ خواب شیریں کے مزے لے سکتے ہیں صحت کی مسلسل خرابی ان میں بد مزاجی چڑ چڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا کر دیتی ہے ورزش نہ کرنے والے لوگ بالعموم سستی اور کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔ ذرا موسم بدلا اور انھیں کسی نہ کسی بیماری نے آدبوچا۔ اگر بیمار نہ بھی ہوں تب بھی طبیعت ہر وقت پژمردہ رہتی ہے زندہ دلی اور بشاشت ان کے نام سے ڈرتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے لیے ورزش کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس شخص کو تندرستی عزیز ہو اسے ورزش کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ تا کہ وہ صحیح معنوں میں زندگی کا  لطف اٹھا سکیں ۔

موسم برسات


              موسم برسات

گرمی کی شدت :

موسم گرما کی شدت سے تمام جوہڑ تالاب خشک ہیں۔ زمین آسمان کا منہ تک رہی ہے بیتاب مگر بے بس ہے ۔ آسمان ہے کہ ممسک کی طرح مٹھی بند کیے ہوۓ ہے۔ چرند پرند غرضیکہ تمام مخلوق پیاس کے مارے منہ کھولے پھر رہی ہے۔ مویشی بے قرار ہیں۔ گھاس کا نشان تک نظر نہیں آتا۔ سڑکوں پر گر دو غبار اڑ رہا ہے دریا اور نہریں مفلس کی طرح خالی ہاتھ دکھائی دیتی ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ الھی کیا ہونے کو

ہے۔ باران رحمت نازل نہ ہوئی تو زندگی دشوار ہو جاۓ گی۔ ہر ایک یہی دعامانگتا ہے ۔

الی رحم کر جاں لب پہ آئی

تیری مخلوق دیتی ہے دہائی

رحمت الہی کا جوش میں آنا :

آخر قادر مطلق کی رحمت جوش میں آگئی۔ آسمان پر کالے رنگ کے بادلوں نے دھاوا بول دیا۔ ہوا کے ساتھ بادلوں کے دل چلے آۓ۔ آفتاب عالم تاب بھی بادلوں کے پردے میں چھپ گیا۔ ساری فضا پر گھٹاؤں کا شامیانہ تن گیا۔ اور آنافانا گھٹا گھپ اندھیرا چھا گیا۔

کیا مست آیا جھوم کے سر شار ابر سے

برسے گا آج خوب دھواں دار ابر سے

پہلے تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آۓ پھر بوندا باندی شروع ہو گئی۔ دہقانوں کی امیدیں بندھنے

لگیں۔اتنے میں بجلی چمکی۔ بادل گرجا اور موسلادھار مینہ برسنے لگا۔ آن کی آن میں زمین کی حالت بدل گئ جہاں گردو غبار کی بادشاہت تھی۔ وہاں پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ در خت دھل کر سر سبز شاداب ہو گئے۔ غرض دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔

ایک نعمت :

برسات بھی خداو ند تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں ایک نعمت ہے۔ سب دیکھتے ہیں کہ ادھر بارش ہوئی۔ ادھر زمین سے سبزہ اگنے لگا۔ پودے پروان چڑھنے لگے ۔ گویا ہر چیز میں نئے سرے سے جان پڑ گئی۔ کسان کے لیے تو یہ پانی نہیں بلکہ دھن برس رہا ہے۔ درخت ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ ہریالی آنکھوں کو کتنی بھلی لگتی ہے۔ پرندے چچار ہے ہیں کوئل کوک رہی ہے۔ پہیے "پی کہاں پی کہاں‘‘ کی

صدا لگار ہے ہیں۔ گویا یہ سب اپنی اپنی زبان میں خداتعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔

فصلوں کا دار و مدار :

پاکستان کے اکثر علاقوں میں فصلوں کا دارو مدار ہی برسات پر ہے۔ اگر بارش وقت پر ہو گئی تو

زمینداروں کے پو بارہ ہیں ورنہ جیتے جی مر گئے جن علاقوں میں شہر میں ہیں وہاں بھی بارش بہت مفید ثابت

ہوتی ہے۔ مگر جہاں نہریں یا تالاب نہیں وہاں کھیتی باڑی کا انحصار صرف برسات پر ہو تا ہے ۔ برسات کا موسم آتا ہے تو غریب کسان آسمان کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگتے تھے کہ کب گھٹا اٹھے اور برسے برسات کی پہلی ہی بوند سے ان کے دل کی کلی کھل جاتی ہے کیوں نہ ہو بارش خدا تعالی کی ایک بہت بڑی

نعمت ہے۔ ہم اس کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے۔

تصویر کا دوسرارخ :

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھئے۔ برسات میں ہر طرف بارش کے شور کی آواز آتی ہے۔

مکانات کا یہ حال کہ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ کبھی یہ دیوار گری، کبھی وہ چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ دل پر خوف ودہشت طاری ہے۔ بجلی چمک چمک کر ڈرا رہی ہے ۔ بادل گرجنے سے چھوٹے بچے سے جاگ رہے ہیں۔ ادھر زیادہ بارش ہوئی ادھر سیلاب آیا اور سینکڑوں مکانات کو اپنے ساتھ بہاتا ہوا چلا گیا۔

سڑکیں ٹوٹ گئیں ریل کی پٹڑیاں اکھڑ گئیں اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ ندی نالوں کا پانی کئی ایکڑ زمین ہر سال تباہ برباد کر دیتا ہے۔ زمینداروں کی پکی ہوئی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ موسم گرما میں جب بارش ہوتی ہے تو آب و ہوا گرم مرطوب ہونے کی وجہ سے بہت سے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں تو کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں خصوصاً مچھر جو رات کی نیند حرام کر دیتا ہے۔ اسکے باوجود بارش کے فوائد کے سامنے یہ نقصانات بیچ ہیں اور برسات کا موسم ہر حال میں خدا کی رحمت ہے۔

Saturday, 27 August 2022

ایک میلے کی سیر


          ایک میلے کی سیر

عام رواج :
ہمارے ملک میں میلوں کا عام رواج ہے شاید ہی کوئی شہر اور گاؤں ایسا ہو گا جہاں ہر سال کوئی نہ کوئی میلہ نہ لگتا ہو۔ یہ میلے عموما بزرگوں کے مزارات پر لگتے ہیں۔ اور ان میں کھیل تفریح کے علاوہ مذہبی عقیدت کا رنگ بھی شامل ہو تا ہے ۔ بعض میلوں کا تعلق موسم کی تبدیلی سے ہو تا ہے اور مو کی میلےکہلاتے ہیں۔ پچھلے سال مجھے ایک دیہاتی میلہ دیکھنے کا اتفاق ہوا یہ میلہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں پنجاب کے مشہور گاؤں مانانوالہ میں لگتا ہے۔ اس پاس کے دیہات اور قصبات کے لوگ اس میلے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ اور ہفتوں پہلے اس کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔
میلہ دیکھنے کی تیاری :
تاہم چند دوستوں نے مل کر میلے میں جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ مجھے تمام رات اس خوشی میں نیند نہ آئی۔ دن چڑھا تو چلنے کی تیاری شروع ہو گئی۔ کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ میرے دوست آ پہنچے۔ ہم نے ایک تانگہ کراۓ پر لیا اور اس پر سوار ہو کر ہنستے کھیلتے روانہ ہو گئے۔ تقریبا نصف گھنٹہ بعد ہم میلے میں پہنچ
گئے ۔ جہاں انسانوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ابھی چاروں طرف سے لوگ پیدل اور سوار چلے آرہے تھے۔ میلے میں ایک عجیب قسم کی گہما گہمی اور چہل پہل نظر آئی۔ لوگوں کا وہ ہجوم تھا کہ خدا کی پناہ کھوٹے سے کھوا چلتا تھا۔ فلمی ریکارڈنگ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ محسوس ہو تا تھا جیسے یہاں کوئی نیا شہر آباد ہو گیا ہے۔ دوستوں کی ٹولیاں ! ادھر ادھر آجارہی تھیں میدان کے بیچوں بیچ بازار بنا ہوا تھا جس میں دور ویہ دکانیں بھی ہوئی تھیں۔ دکاندار ا پنامال بیچنے کے لیے مختلف قسم کی صدائیں لگار رہے تھے۔ حلوائیوں اور شربت فروشوں کی دکانوں پر سب سے زیادہ بھیڑ تھی کچھ لوگ خرید و فروخت میں مشغول تھے اور کچھ چل پھر کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔ کہیں کوئی مداری اور جادو گر کر تب دکھا رہا تھا۔ بھنگڑے اور ڈھول بیٹے کی مسحور کن آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ ان کھیل تماشوں کے علاوہ دیہاتی لوگوں کا جی بہلانے کے لیے سرکش اور تھیڑ بھی موجود تھے۔
پرکشش چیز :
بچوں کے لیے میلے کی سب سے زیادہ پر کشش چیز ہنڈولے اور جھولے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سینکڑوں بچے ان جھولوں اور پنگھوڑوں کی سواری کا لطف اٹھارہے تھے۔ بعض نوجوان بھی جھولے جھلا رہے تھے۔ میرے ساتھیوں کو بھی شوق چڑھا اور کچھ دیر کے لیے ہم بھی ان جھولوں کی سواری سے لطف اندوز ہوتے رہے۔اس سے پہلے ہم پیٹ بھر کر بہت کچھ کھاپی چکے تھے ۔ اب شام ہونے والی تھی۔ چنانچہ
ہم نے واپسی کا پروگرام بنایا کچھ چیز میں گھر والوں کے لیے خرید میں اور تانگے پر سوار ہو کر غروب آفتاب کے قریب گھر واپس آگئے۔

Thursday, 25 August 2022

تعلیم نسواں


تعلیم نسواں             ۔ 

                

کامیاب اقوام :
تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے ۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کی ہر انسان کو ضرورت ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد موجودہ سائنسی دور میں وہی اقوام کا میاب ہیں جن کے مر داور عورتیں دونوں تعلیم سے بہرہ ور ہیں۔ یورپی اقوام دنیا میں اس لیے زیادہ ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں کا ہر مرد اور ہر عورت تعلیم یافتہ ہے۔
گاڑی کے دو پہئے :
عورت اور مردانسانی گاڑی کے دو چکے ہیں دونوں میں یکسانیت اور برابری ہونا لازمی ہے۔ اگر علم مرد کی عقل کو روشن کر تا ہے تو عورت کی عقل کو بھی علم سے جلا ملتی ہے ۔ اس لحاظ سے عورتوں کی تعلیم بھی لازمی ہے۔
اسلام کا فیصلہ :
اسلام نے فیصلہ کر دیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ آج ہوائی جہاز نے چین کو
قریب کر دیا ہے جن دنوں حضور ﷺ نے تحصیل علم کی تاکید میں فرمایا ان دنوں چین کا سفر جان جوکھوں کا کام تھا اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو شخص علم حاصل کرنے کی کوشش میں فوت ہو جاۓ وہ شہید ہے
جنگ بدر کے وہ قیدی جو فدیہ دینے کی استطاعت نہ رکھتے تھے ان کے لیے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھاناہی فدیہ ٹھرایا گیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام میں علم کاور جہ کتنا بلند ہے۔
عورتوں کی تعلیم :
ظاہر ہے کہ اگر مر د علم حاصل کر کے ترقی کے مدارج طے کر سکتا ہے ۔ تو عورت بھی ان در جاتکو علم حاصل کر کے لے کر سکتی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ عورت پر علم کے دروازے بند کیے جاسکیں۔اب تو لڑکیوں کے الگ سکول اور کا لج قائم ہو چلے ہیں۔ میں لڑکیاں پڑھ لکھ کر تعلیم یافتہ کہلائیں گی اور ملک و ملت کے لیے روشن ستارے بن کر رہنمائی کا کام دیں گی۔ ملک کے نام کولو نچا کر میں گی اور قوم کی عزت و آبرو کو چار چاند لگائیں گی۔
فرق :
ایک جاہل عورت بھی ماں کہلاتی ہے اور ایک پڑھی لکھی عورت بھی ماں ہوتی ہے مگر دنوں میں زمین آسمان کا فرق ہے تعلیم یافتہ عورت اپنے گھر کو صاف ستھرارکھتی ہے اپنے خاوند کے لباس بناتی سنوارتی ہے اپنے بچوں کو بھی ایک خاص رنگ میں رنگتی ہے جس سے بچے بچپن ہی میں ہو نہار ہو جاتے ہیں۔ اور بڑے ہو کر ترقی کی راہوں پر چل نکلتے ہیں تعلیم یافتہ ماں غریب بھی ہو تو امیر بن جاتی ہے اور
فضول خرچیوں سے گھر اجاڑ نے کی بجاۓ کفایت شعاری کو اپناتی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ امارت سے قریب تر ہو جاتی ہے بچوں کو خود پڑھاتی ہے وہ پڑھائی کے طریقے جانتی ہے اور محلے کے بچے بھی اس سے پڑھنے کے لیے آجاتے ہیں اور اس طرح وہ محلے میں عزت بھی پاتی ہے اور امیر بھی ہو جاتی ہے بچوں
کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے اور صحت مند رکھنے کے لیے بھی ایک ماں کا پڑھا لکھا ہونا ضروریہے۔ تا کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہو اور بچوں کی صحیح دیکھ بھال کر سکے۔ اب تو عور تیں اعلی تعلیم حاصل کر کے اعلی عہدوں پر فائز ہونے لگی ہیں اور اس طرح انھیں اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا ہے ان میں خودداری پیدا ہورہی ہے اپنے اوپر اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔
جاہل لوگ :
بعض لوگ جن کے پاس روپیہ تو ہے مگر علم نہیں وہ خود جاہل ہونے کی وجہ سے بچیوں کو علم کے
زیور سے آراستہ کرنے کی بجاۓ قیمتی لباس اور زیور سے پیراستہ کرتے ہیں۔ اور اس سے ان میں راہروی اور لالچ جیسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جس سے وہ چراغ محفل تو بن جاتی ہیں مگر چراغ خانہ نہیں رہ سکتیں۔

اخلاقی تربیت :
اگر اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی اخلاقی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ دی جاۓ اور انھیں اسلامی تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے تو وہ لڑکیاں معاشرے کی مثالی خواتین بن جائیں۔ پڑھی لکھی خواتین ملک وملت کی شان بڑھاتی ہیں اپنی اولاد کو ملک وملت کی خدمت کے لائق بناتی ہیں۔ انھیں بڑائی اور بھلائی میں تمیز کرنا سکھاتی ہیں اور اپنے فرائض دینی اور دنیاوی بڑے اچھے طریقے سے پورا کرتی ہیں۔ اور ایک بہترین قوم کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔

Tuesday, 23 August 2022

چاندنی رات کا نظارہ

      

        چاندنی رات کا نظارہ

عظیم نعمت :

خدا تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے چاندنی رات بھی ایک عظیم نعمت ہے جب اندھیری راتوں سے انسان اکتا جا تا ہے تو وہ خوبصورت نظاروں سے جی بہلا نا چاہتا ہے۔ چاندنی رات کو ان نظاروں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص چاندنی رات کے نظارے سے طبیعت خوش کرنا چاہتا
ہے۔ ویسے بھی چاندنی کا لفظ ہی بہت پیارا ہے ۔ مائیں اپنے بچوں کو چاند کہتی ہیں اور بچے چاند کو چندا ماموں کہہ کر پکارتے ہیں چاندنی رات کا نظارہ اس قدر خوبصورت اور پیارا ہو تا ہے کہ اسے قلم سے بیان کرنا
نا ممکن ہے اس کی دلفریبیوں کو دیکھ کر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ رات کی خاموشی اس کو اور بھی زیادہ حسین بنادیتی ہے ۔

باغ کی سیر :

چاندنی رات میں باغ کی سیر بہت مزہ دیتی ہے ۔ خوبصورت پھولوں پر جب چاند کی روشنی پڑتی ہے۔ تو ان کا حسن دوبالا ہو جا تا ہے۔
 درختوں کے پتوں میں چھن چھن کر آتی ہے ۔ تو غمگین سے غمگین طبیعتیں بھی مسرور ہو جاتی ہیں۔

شاعرانہ ماحول :

چاندنی رات شاعروں کو شعر کہنے پر آمادہ کر دیتی ہے ۔ اس کا خوشگوار ماحول شاعر کے دل و دماغ کو حرکت میں لے آتا ہے اور وہ بلند پایہ شعر کہنے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ یہی حال عاشقوں کے دلوں کا ہے۔ چاندنی رات میں وہ بھی بالکل کھو جاتے ہیں۔ اگر اس عالم میں دریا کے کنارے جا نکلیں تو یہ کیفیت اور بھی دو چند ہو جاتی ہے ۔ دریا کے پانی میں جب چاند کا عکس پڑتا ہے تو موجیں نور کا غسل کرتی ہوئی
محسوس ہوتی ہیں۔

دیہاتوں میں :

دیہاتی ماحول میں چاندنی رات کچھ اور ہی مزہ دیتی ہے ۔ ہرے بھرے کھیت چاندنی میں نہاتے ہیں بچے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ لڑکیاں گیت گاتی ہیں۔ بوڑھے حقے کا دور چلاتے ہیں۔ اور جو چوپالوں میں تھے کہانیاں سناتے ہیں۔ پرانے زمانے میں قافلے چاندنی راتوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ آج کل بھی دیہاتی علاقوں میں چاندنی رات میں سفر کرنا بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اندھیری رات میں چور ڈاکوؤں کا جو ڈر ہو تا ہے اس سے چاندنی رات میں نجات مل جاتی ہے۔ اور قافلے بے فکری سے باتوں ہی باتوں میں منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔

فائده :

چاندنی رات کا نظارہ انسانی صحت کے لیے بھی بے حد مفید ہے ۔ چاند کی کرنوں سے آنکھوں کو وہی طراوت اور ٹھنڈک میسر آتی ہے جو شبنم پر چلنے سے پاؤں کو ڈاکٹروں کا کہنا ہے ۔ کہ چاندنی رات میں سیر کرنے سے آنکھوں کو خاص فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کی تکان دور ہو جاتی ہے اور دماغ تر و تازہ ہو کر کام کے
لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ چاندنی رات خداتعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

Friday, 19 August 2022

تندرستی ہزار نعمت ہے

       تندرستی ہزار نعمت ہے

صحت اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے، اور اس کا صحیح استعمال ہی ایک خوشحال زندگی کی ضمانت ہے۔ اردو کا مشہور محاورہ "تندرستی ہزار نعمت ہے" ایک گہری حقیقت کو بیان کرتا ہے، جو انسان کو صحت کی قدر اور اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ اگر انسان صحت مند ہو تو وہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے، لیکن اگر صحت خراب ہو تو دنیا کی ساری دولت بھی بے معنی لگتی ہے۔

صحت کی اہمیت

تندرستی صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی، روحانی اور جذباتی صحت کو بھی شامل کرتی ہے۔ ایک صحت مند انسان نہ صرف خوش رہتا ہے بلکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بھی ہوتا ہے۔ صحت مند زندگی کے کئی فوائد ہیں، جیسے:

  • بہتر طرزِ زندگی: صحت مند انسان زیادہ توانائی کے ساتھ روزمرہ کے کام انجام دے سکتا ہے۔
  • بیماریوں سے تحفظ: اچھی صحت رکھنے والا انسان کم بیمار پڑتا ہے، جس سے اس کی زندگی کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
  • ذہنی سکون: جسمانی تندرستی ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے، جو کسی بھی کام میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
  • معاشرتی ترقی: ایک صحت مند قوم زیادہ محنت اور لگن سے ترقی کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔

صحت مند زندگی کے اصول

صحیح معنوں میں تندرست رہنے کے لیے ہمیں کچھ بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے:

1. متوازن غذا

صحت مند زندگی کا پہلا اصول متوازن غذا کا استعمال ہے۔ جسم کو تمام ضروری غذائی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے پروٹین، وٹامنز، معدنیات اور فائبر۔ جنک فوڈ اور غیر صحت بخش کھانوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور تازہ سبزیاں، پھل، دودھ، گوشت اور دالیں اپنی خوراک میں شامل کرنی چاہئیں۔

2. ورزش اور جسمانی سرگرمیاں

جسمانی صحت کے لیے روزانہ ورزش کرنا ضروری ہے۔ چہل قدمی، یوگا، جم یا کوئی بھی جسمانی سرگرمی صحت مند رہنے میں مدد دیتی ہے۔ ورزش سے دل کی بیماریوں، موٹاپے اور دیگر مسائل سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔

3. ذہنی سکون اور خوش رہنا

ذہنی سکون بھی جسمانی صحت کا لازمی جزو ہے۔ زیادہ سوچنا، پریشان رہنا یا دباؤ میں رہنا صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ خوش رہنا، مثبت سوچ اپنانا اور عبادت کرنا ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے۔

4. اچھی نیند

نیند صحت مند زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک بالغ شخص کو روزانہ 7-8 گھنٹے کی نیند لینی چاہیے۔ نیند کی کمی سے ذہنی دباؤ، تھکن اور دیگر صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

5. صفائی اور حفظانِ صحت

صفائی کا خیال رکھنا بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ روزانہ غسل کرنا، ہاتھ دھونا، صاف ستھرا ماحول رکھنا اور کھانے پینے میں احتیاط برتنا صحت مند رہنے کے لیے لازمی ہے۔

بیماریوں سے بچاؤ اور علاج

اگرچہ صحت مند طرزِ زندگی اپنا کر کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے، لیکن بعض اوقات بیماریاں قدرتی طور پر بھی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے وقت پر علاج کروانا اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ طبی معائنے کرواتے رہنا اور ویکسینیشن کروانا بھی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اہم ہے۔

نتیجہ

تندرستی واقعی ایک ہزار نعمتوں کے برابر ہے، کیونکہ صحت مند انسان ہی حقیقی خوشی، کامیابی اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمیں اپنی صحت کی حفاظت کے لیے متوازن غذا، ورزش، نیند، ذہنی سکون اور صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر صحت اچھی ہوگی تو زندگی کے تمام رنگ بھی خوبصورت محسوس ہوں گے۔


عمران خان کی تقاریر: ایک جامع تجزیہ

               عمران خان کی تقاریر: ایک جامع تجزیہ تمہید عمران خان، پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور تحریک انصاف (PTI) کے بانی، ایک معروف عوامی...