ایک ہوں مسلم، حرم کی پاسبانی کے لیے
اسلام اتحاد اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا گیا ہے، اور ان کے دلوں میں محبت اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی اپنی شاعری میں امت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا یہ شعر:
"ایک ہوں مسلم، حرم کی پاسبانی کے لیے"
درحقیقت مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور دین اسلام کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ آج امت مسلمہ کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی اتحاد ہے۔
اتحاد کی ضرورت کیوں؟
آج اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوا، انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور ترقی کی منازل طے کیں۔ خلافت راشدہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک، مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کے مضبوط اتحاد میں پوشیدہ تھا۔ لیکن جیسے ہی فرقہ واریت، باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات نے جگہ لی، مسلمان زوال کا شکار ہو گئے۔
آج بھی مسلم دنیا کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ امت مسلمہ کی نااتفاقی اور اندرونی اختلافات ہیں۔ اگر مسلمان ایک بار پھر ایک جسم اور ایک جان بن جائیں، تو کوئی طاقت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں اتحاد کی اہمیت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
(سورۃ آل عمران: 103)
ترجمہ: "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔"
اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی نبی کریم ﷺ نے امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا ہے:
"مومن آپس میں محبت، ہمدردی اور رحم دلی میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔"
(صحیح بخاری)
یہ آیات اور احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ اتحاد ہی امت کی طاقت ہے اور فرقہ واریت اس کی کمزوری۔
---
فرقہ واریت اور انتشار – سب سے بڑا خطرہ
آج مسلم امہ کو سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت اور اندرونی تنازعات سے ہے۔ دشمن ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں اور کمزور ہو جائیں تاکہ وہ ان پر حکمرانی کر سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوا، وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے۔
آج ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دشمن وہ نہیں جو کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے، بلکہ ہمارا اصل دشمن وہ سوچ ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتی ہے۔ جب ہم اپنے مسلک، زبان، قومیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر خود کو تقسیم کر لیتے ہیں، تو ہم اپنی ہی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں۔
---
امت مسلمہ کو کیسے متحد کیا جا سکتا ہے؟
1. اسلامی تعلیمات پر عمل
ہمیں قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنانا ہوگا اور ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو ہمیں تقسیم کرتی ہے۔
2. باہمی برداشت اور احترام
اختلاف رائے فطری ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے نظریات اور خیالات کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا۔
3. مشترکہ مقاصد پر توجہ
اگر امت مسلمہ اپنے مشترکہ مفادات، جیسے کہ فلسطین، کشمیر اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دے، تو اختلافات کم ہو سکتے ہیں۔
4. جدید دور میں اتحاد کے ذرائع
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم دنیا کے ہر کونے میں موجود مسلمانوں سے جڑ سکتے ہیں۔ اس کا مثبت استعمال ہمیں متحد کر سکتا ہے۔
5. قیادت کا صحیح انتخاب
ہمیں ایسے رہنماؤں کا انتخاب کرنا ہوگا جو امت کو جوڑنے والے ہوں، نہ کہ توڑنے والے۔ اگر قیادت ایماندار اور دیانت دار ہو، تو اتحاد کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
---
اختتامیہ
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کا درس دیا۔ اگر آج ہم "ایک ہوں مسلم، حرم کی پاسبانی کے لیے" کے پیغام کو سمجھ لیں، تو ہم ایک بار پھر عروج حاصل کر سکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک قوم بن جائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جائے گا اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دوبارہ دنیا کی عظیم ترین قوم بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امت مسلمہ کے اتحاد کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،
No comments:
Post a Comment